تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس کے دوران غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے مزاحیہ ڈرامہ پیش کرتے ہوئے ہاتھوں میں ایک نقشہ اٹھایا ہوا تھا، جس کے بارے میں لکھا تھا کہ نیو مڈل ایسٹ۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کا قیام سنہ1948ء میں فلسطین کی سرزمین مقدس پر ناجائز اور غاصبانہ انداز سے کیا گیا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی حکومتوں کی سرپرستی سے یہ جرثومہ قائم کیا گیا تھا۔ یہ ساری مغربی حکومتیں چاہتی تھیں کہ غرب ایشیائی علاقوں میں اپنا نو آبادیات قائم رکھنے کیلئے غاصب صیہونی حکومت ایک پولیس مین کا کردار ادا کرے۔ اسی طرح سوئز کنال پر بھی ان کی اجارہ داری ہو اور یورپ سمیت افریقہ سے ایشیاء آنے والے بحری جہازوں کی آمد و رفت پر مکمل نگرانی کے ساتھ ساتھ ان سے ٹیکس وصول کیا جائے۔
بہرحال اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا، اس قیام کے لئے صیہونیوں کو مذہبی عقائد کے ساتھ جمع کیا گیا اور جب یہ جمع ہوئے تو انہوں نے فقط اسرائیل تک اکتفا کرنے کی بات نہ کی بلکہ غرب ایشیائی ریاستوں پر مشتمل ایک گریٹر اسرائیل کو تشکیل دینے کی ٹھان لی۔ اس کام کے لئے مسلسل جنگوں کے ذریعے عرب حکومتوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ امریکہ نے ہر جنگ میں باقاعدہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی اس لئے مدد کی، تاکہ خطے میں امریکی کنٹرول باقی رہے۔ دوسری جنگ عظیم اور اس سے قبل خلافت عثمانیہ کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث آزاد ہونے والے غرب ایشیائی ممالک کے وسائل پر امریکی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لئے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سے زیادہ کوئی اور موزوں نہیں تھا۔
اسرائیل نے ہمیشہ جنگوں اور دہشت گردی کے ذریعے گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو مکمل کرنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اسی طرح امریکہ نے بھی ہمیشہ اسرائیل کے اس خواب کو مکمل کرنے کے لئے دنیا کو نیو مڈل ایسٹ کا نعرہ یاد کروایا۔ مجھے یاد ہے کہ جب امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل اور یورپی حکومتوں کی پشت پناہی میں لبنان میں سنہ2006ء میں جنگ مسلط کی گئی تھی تو اس وقت کی امریکن وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس میڈیا کے سامنے بہت فخر کے ساتھ بتاتی تھیں کہ ہم اس جنگ کے خاتمہ پر ایک نیا مشرق وسطیٰ پیدا کریں گے۔ یعنی اس جنگ کے پیٹ سے نیا مشرق وسطیٰ پیدا ہوگا، لیکن افسوس کہ یہ امریکی خاتون عہدیدار اپنا خواب ادھورا ہی لئے رخصت ہوگئیں اور آج امریکی سیاست میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
پے در پے کوششوں میں ناکامی کے بعد غاصب صیہونی حکومت اور امریکہ کی جانب سے جو آخری کوشش کی گئی، وہ سنہ2011ء سے سنہ2020ء تک مسلسل شام و عراق اور لبنان میں داعش کی پرورش اور داعش کے ذریعے گریٹر اسرائیل یا نیا مشرق وسطیٰ بنانے کی کوشش کی گئی، جسے خطے میں موجود اسلامی مزاحمت نے بری طرح کچل کر رکھ دیا۔ اب ایک مرتبہ پھر ادھورے خواب اور ناکام تمناؤں کے ساتھ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں نقشہ دکھاتے ہوئے نئے مشرق وسطیٰ کی بات کی ہے۔ اس نقشہ میں فلسطین کو غائب کر دیا گیا، شام اور عراق کو بھی حذف یا اسرائیلی زیر اثر علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ حتیٰ اس نقشہ کے مطابق سعودی عرب کے کچھ علاقوں کو بھی غاصب صیہونی حکومت کا علاقہ شمار کیا گیا ہے۔
یہاں پر اقوام متحدہ کے ادارے اور سیکرٹری جنرل سے سوال ہے کہ کیا کسی غاصب حکومت کا دوسرے ممالک کے نقشوں کو اپنے ناپاک عزائم میں شامل کر لینا عالمی قوانین کے زمرے میں آتا ہے؟ یا یہ کہ اس کو اسرائیل کی طرف سے دوسرے ممالک کے لئے دھمکی تصور کیا جائے؟ بہرحال ایک اور منظر یہ بھی ہے کہ اب اسرائیل تمام تر ناکامیوں کے بعد جس نئے مشرق وسطیٰ کے نقشہ کو اٹھائے کامیڈی شو پیش کر رہا ہے، کیا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے مراحل میں ہے؟ کیا اسرائیل یہ سمجھ رہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے نتیجہ میں نیا مشرق وسطیٰ بن جائے گا؟ اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر سوال سعودی عرب کی حکومت اور ان کے عوام کے مفاد کا ہے؟ کیا سعودی عرب کی حکومت ایک ایسے نقشہ پر راضی ہو جائے گی، جس کی سرحدوں کا تعین اسرائیل نے اپنے مفاد کے لئے خانہ کعبہ اور روضہ رسول کے علاقوں تک کیا ہو؟ کیا سعودی عرب کے عوام اس طرح کے اسرائیلی منصوبہ کو تسلیم کر لیں گے۔؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل خود سعودی عرب کی بادشاہت کے خاتمہ کے لئے کھڈا کھوڈ رہی ہے، جیسا کہ صیہونیوں نے ماضی میں خلافت عثمانیہ کے خلاف کھودا تھا۔ یہاں پر سوالات تو بہت جنم لے رہے ہیں، لیکن خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل مسلسل غرب ایشیاء کے نقشہ کو تبدیل کرکے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نیتن یاہو جیسے ڈرامہ باز کی جانب سے اقوام متحدہ میں اس طرح کا نقشہ لہرانا پوری اقوام متحدہ کی تذلیل کے مترادف ہے۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ فلسطین میں اسرائیل فلسطینیوں کی مزاحمت کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔ امریکہ اور اس کی جارح افواج عراق میں ذلت اور رسوائی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ عراقی حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ عرا ق میں امریکی فوج کی موجودہ غیر قانونی ہے۔ اب یہ لاوا کسی بھی وقت امریکہ کے خلاف پھٹ سکتا ہے اور اس کا بہت بڑا خمیازہ امریکی حکومت کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
اسی طرح شام کی صورتحال بھی امریکہ اور اسرائیل کے لئے بالکل اچھی نہیں ہے۔ لبنان میں بھی مزاحمت کی موجودگی سے غاصب صیہونی حکومت کو شکست کا سامنا ہے۔ یمن کی صورتحال یمن کے حوثیوں کے حق میں تبدیل ہو رہی ہے۔ سعودی حکومت کو شکست ہو رہی ہے اور کسی نہ کسی طرح سعودی حکومت اس شکست کو تسلیم کرنے کی طرف گامزن ہے۔ ان تمام حالات میں نیتن یاہو کا اس طرح نقشہ لہرانا، اس بات کی دلیل ہے کہ صیہونی غاصب حکومت کے وزیراعظم کی دماغی صحت مشکوک ہے یا پھر وہ ایک کامیڈین ہیں، کیونکہ مزاحمت کی خطے میں مستحکم پوزیشن یہ بتاتی ہے کہ اسرائیل گریٹر اسرائیل یا نیا مشرق وسطیٰ تو کیا اپنے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے بھی ہاتھ دھونے والا ہے۔
آپ کا تبصرہ